Read more
بامسی کی اصل تاریخ
بامسی بیرک ڈرامہ سیریل ڈریلش ارطغل اور کرولش عثمان کا ایک ایسا کردار ہے جس نے سب کے دل جیت لئے۔ دو تلواروں سے دشمنوں پر آندھی بن کر ٹوٹنے والے بامسی بیرک کی بہادری تو سب نے دیکھی. لیکن کیا عثمانی تاریخ میں واقعی ایسا کوئی شخص تھا یا یہ صرف ایک افسانوی کردار ہے؟ آئیے آپ کو اصل تاریخی حقائق سے روشناس کرائیں
وہ اوغوز ترکوں کا ایک مشہور جنگجو تھا. اس کی زندگی کے بارے میں اوغوز ترکوں کی معروف کتاب “دیدے کرکت” میں لکھا گیا ہے۔ دیدے کرکت کی کہانیوں کے مطابق بامسی بیرک اوغوز شہزادے بےبورے بے کا بیٹا تھا۔ قدیم روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ سارے اوغوز شہزادے ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے بےبورے بے واحد شہزادہ تھا جس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
اس مجمعے میں بےبورے بے رو پڑا کہ اس کے بعد اس کا قبیلہ تباہ ہو جائے گا. نہ تو اس کا کوئی بھائی ہے نہ کوئی بیٹا۔ اُس کی حالت دیکھ کر سب شہزادوں نے اللہ سے دعا کی کہ اللہ بےبورے بے کو اولاد نرینہ عطا کرے۔ وہاں پر ایک اور شہزادے بےبےچن نے بھی ان سے اولاد کی دعا کروائی۔ کچھ عرصہ بعد دونوں شہزادوں کو اولاد عطا ہوئی. بےبورے بے کے گھر بیٹا پیدا ہوا جب کہ بےبےچن کے گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
بےبورے بے نے اپنے چند غلاموں کو قسطنطنیہ بھیجا. تاکہ وہ اس کے بیٹے کے لیے تحائف اور دوسری چیزیں لے کر آئیں۔ چونکہ سفر طویل تھا اس لئے ان کی واپسی سالوں بعد ہوئی. وہ انتہائی مہنگی اشیاء لے کر واپس آ رہے تھے کہ اپنے قبائیل سے تھوڑی دور ایونک کے قبیلے سے ان کے قافلے پر حملہ ہو گیا. لیکن وہاں ایک نوجوان نے دونوں ہاتھوں سے تلواروں کے ساتھ لڑتے ہوئے ان سب ڈاکو کو ماردیا اور ان قافلے والوں کو بچا لیا۔ اس نے جو ان کی مہارت دیکھ کر قافلے والے اس سے بہت مرعوب ہوئے۔ نوجوان ان سے رخصت لے کر قبیلے چلا گیا اور اپنے والد کے خیمے میں جا بیٹھا۔
یہ قافلہ جب قبیلے پہنچا تو تاجر بےبورے بے کے خیمے میں گئے۔ وہاں اسی نوجوان کو بےبورے بے کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر انہوں نے اس کے ہاتھ چومنا شروع کر دیئے۔ اس پر بےبورے بے برہم ہوتے ہوئے بولا ” یہ کیسی روایت ہے کہ باپ بیٹھا ہے اور تم بیٹے کی دست بوسی کر رہے ہو؟” اس پر لوگوں نے قافلے پر حملے کی تمام صورت حال بتائی. اور بتایا کہ کس طرح اس لڑکے نے ان ڈاکوؤں سے قافلے والوں کو بچایا۔ اس کا باپ بہت خوش ہوا۔ تب تک اس نے اپنے بیٹے کا کوئی نام نہیں دیا تھا. قافلے والوں نے دشمنوں کے سر اڑانے کی وجہ سے اسے بامسی بیرک کہا جس کے بعد یہی اس کا نام پڑ گیا۔
شہزادہ بامسی نے جنوبی افریقہ سے لے کر انطولیہ تک بہت سی لڑائیاں لڑیں۔ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نہایت ہی نرم دل اور خوش مزاج طبیعت کا مالک شخص تھا۔ اس کی شادی میں بےبےچن کی بیٹی بانو سے ہوئی تھی. جو کہ اس کی طرح اوغوز شہزادوں کی دعاوں کے باعث پیدا ہوئی تھی۔ تاریخی ترک کتابوں میں ان دونوں کو اوغوز کے کرشماتی بچے تصور کیا جاتا ہے۔
شادی کی رات ہی اس کے خیمے پر حملہ ہوا اور اسے اونیک قلعے میں قید کردیا گیا۔ بامسی بیرک سولہ سال اس قلعے کی جیل میں قید رہا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قلعے میں ایک شہزادی نے اسے بھاگنے میں مدد کی اور اسے جیل سے بھگا دیا۔ جبکہ چند لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اُس قلعے کی شہزادی جس کا نام حیلینا تھا. بامسی کی محبت میں گرفتار ہوگئی اور اُسے وہاں سے لے کر فرار ہو گئی. جس کے بعد دونوں نے شادی کرلی۔ ڈریلش ارطغل میں بھی دکھایا گیا ہے کہ اُسے حیلینا نامی شہزادی پسند آجاتی ہے جس سے وہ شادی کر لیتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ حقیقی زندگی میں بامسی بیرک ارطغل غازی اور عثمان غازی سے کبھی نہیں ملا بلکہ اس سے بہت پہلے کے دور میں گزرا ہے۔ ڈرامہ سیریل ارطغل میں اس کا کردار اس لئے دکھایا گیا ہے تاکہ عظیم ترک بہادر کو خراج عقیدت پیش کی جاسکے ۔ بامسی بیرک کی قبر اناطولیہ کے قریب واقع ہے جہاں ڈرامہ سیریل ارطغل میں مشہور ہو جانے کے بعد لوگوں نے جانا شروع کر دیا تھا جس کے بعد حکومت نے وہاں مزار نما عمارت تعمیر کرا دی ہے۔



